Sunday, September 30, 2018

مظلوم عورت

محترم قارئین! قبل از اسلام عورت کی زندگی بڑی اجیرن تھی ۔وہ ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔اس کے معاشرے میں کوئی حقوق نہ تھے۔اس کی مثال ایک جانور کی تھی جس سے صرف کام لیا جاتا ہے۔اسلام سے قبل عورت کی رشتے کا بھی کوئی تعین نہ تھا اور وہ مسلسل ظلم اور بربریت کے سائے میں تھی۔اسلام کی آمد کے بعد عورت کے حقوق متعین ہوئے وہ عورت جو ایک جانور سمجھی جاتی تھی اس کو ماں بہن بیٹی بیوی جیسے پاکیزہ رشتے ملے ۔ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی تو بیٹیاں رحمت قرار پائیں ۔مگر افسوس کہ آج پھر ایک نئے طریقے سے عورت کو جانور بنادیا گیا ہے۔وہ جانور جو لگتا تو انسان ہے مگر اس سے جانوروں والا کام لینے والے خود کو انسان کہتے ہیں۔آج عورت جس کو گھر کی ملکہ کہا گیا ہے اس کو آزادی کے نام پر سرعام نیلام کیا جاتاہے اور بڑے فخر سے اس نیلامی کو دیکھا اور نیلامی میں حصہ لیا جاتاہے۔قبل از اسلام عورت کو منڈیوں میں بیچاجاتاتھا آج پھر وہی کام مہذب طریقے سے آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر کیا جارہا ہے ۔وہ عورت جو گھر کی سردار ہے اس کو بےپردہ کر کے کمرشلز کرواکر پیسے لیئیے جارہے ہیں اور اس کام کو فن کا نام دے دیا گیا ہے۔آج عورت مظلوم ہے اس لئیے کہ پہلے تو عورت کو حقوق نہ دے کر مظلوم کیا گیا مگر اب تو عورت کو آزادی نسواں کا حوبصورت اور بظاہر دلفریب نعرہ دے کر مظلوم کردیا گیا۔ہماری وہ بہنیں اور بیٹیاں جن کو آسمان نے بھی شائد ہی دیکھا تھا آج سرعام ان کی عزت چند ٹکوں کی خاطر نیلام ہے۔بڑی معزت سے کہ اب ایسا ماحول ہے کہ گھر والے بھی عورت کے بےپردہ باہر جانے کو اور جاب کو اور باہر کے کاموں میں حصہ لینے کو باعث فخر سمجھتے ہیں اور ان کی سیلری سے کھاتے ہیں اور شرم اور حیاء ان کے اندر سے نکل چکی ہے۔کام والی عورت دن بھر کام کرنے کے بعد گھر آکر بچوں اور شوہر کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے اور اپنی جاب کا بھی خیال رکھتی ہے یعنی اس کمزور ذات پر ڈبل کام کا دباو مگر افسوس تو ان پر ہے جو ان پیسوں پر پلتے ہیں جو وہ عورت کما کر لاتی ہے۔کتنی جاب کرنے والی خواتین سے انٹرویو ہوئے اور ایسے ایسے انکشافات ہوے کہ انسانیت شرما جائے۔اس صورتحال میں بعض مغربی میڈیا کے لوگ اور مغرب کے پجاری این جی اوز کے نام پر عورتوں کی دنیا اور آخرت تباہ کرنے پہ لگے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بنت حوا کے مستقبل کے حوالے سے اسلام نے جو طریقے بتائے ہیں ان پر عمل کیاجائے تاکہ معاشرے میں عورت کی تزلیل بند ہو ۔وماعلیناالی البلاغ۔
محمدعتیق اللہ۔

Saturday, September 29, 2018

ایک معاشرتی مسئلہ

دوستو آج جس موضوع پر مختصر سی گفتگو کرنا چاھتا ہوں وہ ہے ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق۔
قارئین! ہمارے معاشرہ میں عزت اس کی ہوتی ہے جس کے پاس پیسہ اور دولت ہو غریب کی کوئی عزت نہیں ۔ہمارے معاشرے میں فساد کی ایک بڑی وجہ یہی فرق کرنا ہے جو امیر اور غریب کے درمیان کیا جاتا ہے۔کوئی اخلاقی لحاظ سے کتنا ہی خراب ہو مگر اس کی دولت اس کی جھوٹی عزت کا باعث بن جاتی ہے اور غریب چاہے کتنا نیک کیوں نہ ہو اس کی عزت کا خیال نہیں رکھا جاتا دوسرے الفاظ میں عزت کا معیار دولت ہے۔یہی وجہ ہے کہ غریب کی زندگی کو مالدار نے تباہ کردیا اور معاشرہ تبائی کا شکار ہے۔حلانکہ ہونا تو چاہے کہ غریب پر زیادہ توجہ دی جائے اس کی مالی امداد کی جائے اور اس کی خبرگیری کی جائی مگر.۔ افسوس ۔۔ کہ اب ایسا نہیں ہوتا۔لہذا کچھ غریب لوگ حالات سے تنگ آکر اور معاشرے کا ظلم برداشت کرنے کے بعد بغاوت کر دیتے ہیں اور معاشرہ چوری،ڈاکہ،فساد اور قتل وغارت کا میدان بن جاتا ہے۔پھر فسادات اور جرائم کا ناختم ہونے والا سلسلئہ شروع ہوجاتاہے اور معاشرے کا امن اور سکون ختم ہوجاتاہے۔ان تمام مسائل کا حل ہمیں اسلام نے بتایا ہے کہ مساوات پر مبنی معاشرہ ہو کسی بھی جرم کی سزا امیر اور غریب کےلئے برابر ہو اور بڑائی کا معیار تقواہ ہو تو ہمارا یہ معاشرہ امن و سلامتی والا بن سکتا ہے ۔اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں امن وسکون سے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔وماعلینا الا البلاغ۔
محمدعتیق اللہ ۔

مظلوم عورت

محترم قارئین! قبل از اسلام عورت کی زندگی بڑی اجیرن تھی ۔وہ ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔اس کے معاشرے میں کوئی حقوق نہ تھے۔اس کی مثال ایک جانور ...

popular posts